قومی

ا ٓئین کے ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، اعظم نذیر تارڑ

مجوزہ آئینی ترامیم پرمثبت تجاویز کا خیرمقدم کریں گے، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا قومی اسمبلی میں پالیسی بیان

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ا ٓئین کے ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے قانون سازی پارلیمنٹ کا کلی اختیار ہے، مجوزہ آئینی ترامیم پرمثبت تجاویز کا خیرمقدم کریں گے،سپریم کورٹ میں بہت بڑی تعداد میں مقدمات کی وجہ سے عام آدمی کو انصاف میں تاخیرکا سامنا کرنا پڑتا ہے ،ہمارا مقصد عام لوگوں کو عدالتوں سے فوری انصاف کی فراہمی ہے۔ آئینی ترامیم سے رات کے اندھیرے میں کوئی ڈاکہ ڈالنا یا چوری کرنا مقصود نہیں ، کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ آئینی عدالت نہ بنے، مجوزہ آئینی عدالت میں وفاق کی تمام اکائیوں کی نمائندگی ہو گی۔

پیرکوقومی اسمبلی میں مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے پالیسی بیان میں وزیرقانون نے کہا کہ ترامیم کا مسودہ کابینہ میں منظوری کےلئے پیش ہوتا ہے،سی سی ایل سی میں اس کا شق وارجائزہ لیاجاتا ہے، پھر حکومت کا اختیار ہوتا ہے کہ اسے قومی اسمبلی یا سینیٹ میں متعارف کرائے، ابھی ان ترامیم کا مسودہ سی سی ایل سی میں زیر بحث نہیں آیا اور کابینہ میں بھی پیش نہیں کیا گیا۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اس حوالے سے پہلے مشاورت ہوئی ، بعد میں متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان مسلم لیگ، اعجاز الحق، بلوچستان عوامی پارٹی ، اے این پی اور ڈاکٹر عبد المالک بلوچ ، مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی سے بھی بات ہوئی ۔

وزیر قانون نے کہا کہ ماضی میں آئین کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ کودرست کرنے کےلئے پارلیمنٹ نے 18ویں ترمیم منظور کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان آگے بڑھے، موجودہ حالات میں کوئی بھی آئینی عدالت کے قیام کی ضرورت سے اختلاف نہیں کر سکتا، آئین کے ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، 25کروڑ عوام نے پارلیمنٹ کو ملک کی سمت درست کرنے کا اختیار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اورخیبرپختونخواکے عوام نے ریاست کے تحفظ کےلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، فوج نے بھی ملک کےلئے جو قربانیاں دی ہیں، ہم ان کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ انہو ں نے کہا کہ جس بارکونسل میں کہیں گے، یہ مجوزہ پیکج لے کرجانے کےلئے تیار ہوں۔

انہوں نے کہا کہ آئینی عدالتوں کے قیام کوچیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے جوڑا گیا اور یہ کہا جارہا ہے کہ عدالتوں پر حملہ ہوا ہے حالانکہ ہمارے دور حکومت میں تو کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا گیا ، ماضی قریب میں یہ حملہ اس وقت ہوا کہ جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو نشانہ بنایا گیا، یہ لوگ ان ریفرنسز کی حمایت کرتے رہے ہیں، عدالت نے وہ ریفرنس رد کرتے ہوئے کہا کہ ان میں کوئی حقیقت نہیں ۔ اعظم نذیر تارڑ نے مجوزہ آئینی عدالت کی ہیئت کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس میں سات یا آٹھ ججز کی تجویز ہے جس میں وفاق کی ہر اکائی کی نمائندگی ہو، آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس لینے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پا س ہے جس کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے ، اسی طرح آرٹیکل 199میں ہائیکورٹ کے مقدمات پر اپیلوں کی سماعت بھی آئینی عدالت میں ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں آئینی ، فوجداری ، دیوانی ، بینکنگ اور سروسز ٹریبونلز کے تمام مقدمات جاتے ہیں جس کی وجہ سے عام آدمی کو انصاف میں تاخیرکا سامنا ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی کمزوریوں کی وجہ سے سیاسی معاملات حل کرنے کےلئے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہیں، اپنی نادانیوں کی وجہ سے ہم نے اپنا اختیار دیوار کے اس پار دیدیا ہے، یہ اختیار قانون سازی کے ذریعے ہی واپس آسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی کمیشن کو18ویں ترمیم کی روح کے مطابق تشکیل دیا جانا چاہئے، ہم نے تجویز دی ہے کہ عدالتی کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس کے پاس ہو،6 جج اور 6 پارلیمنٹیرین اوربار کونسل کی اس میں نمائندگی ہو، کمیشن کو ہائی کورٹ کے ججوں کی کارکردگی جانچنے کا بھی اختیار حاصل ہو اور کسی جج کے مس کنڈکٹ پر بھی سفارش کرنے کا اختیار ہونا چاہئے۔

ہم نہیں چاہتے کہ پارلیمانی کمیٹی کی روز بے توقیری ہو، اعلیٰ عدلیہ کی کارکردگی جانچنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہے ، اس سارے معاملے میں توازن لانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حلقے بہت بڑے بڑے ہیں، صوبے کے منتخب نمائندوں کا مطالبہ تھا کہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اور پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کو مجوزہ ترامیم کے حوالے سے جس حد تک بتا سکتے تھے ،ہم نے بتا دیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو مضبوط بنانا ہوگا۔

متعلقہ آرٹیکل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button