قومی

قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پرعام بحث جاری،اراکین کاتنخواہ دارطبقہ پرٹیکسوں کے بوجھ کم کرنے، ملک سے برین ڈرین کوروکنے، زرعی شعبہ کومراعات دینے، اور معیشت کو دستاویزی بنانے کیلئے اقدامات کی تجاویز

قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پرعام بحث اتوارکوبھی جاری رہی اورمختلف جماعتوں کے اراکین نے تنخواہ دارطبقہ پرٹیکسوں کے بوجھ کم کرنے، ملک سے برین ڈرین کوروکنے، زرعی شعبہ کومراعات دینے، اور معیشت کو دستاویزی بنانے کیلئے اقدامات کامطالبہ کیا،بعض اراکین نے پیٹرولیم ڈولپمنٹ لیوی میں اضافہ واپس لینے اوراشیاء پرسیلزٹیکس کی وصولی کااختیارصوبوں کودینے کی تجاویز بھی پیش کیں۔مالی سال 2024-25 کے بجٹ پربحث میں حصہ لیتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کے رکن خواجہ شیراز محمود نے کہا کہ ہم پاکستان کے عوام کی نمائندگی کررہے ہیں،پاکستان کے عوام نے ووٹ کی طاقت سے ہمیں یہاں بھیجا ہے،ہم اس ایوان کی توقیر کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی عمل آگے بڑھا رہے ہیں۔اس ملک کی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔انہوں نے ہم حکومت سے بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ ملک وقوم کا سوچیں۔

ریاستی اداروں کو درپیش چیلنجوں میں ہم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں،ہم پارلیمان کی بالادستی کی بات کرتے ہیں لیکن بجٹ پر پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیاگیا۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں دیاگیا۔تنخواہ دار طبقہ کی تنخواہوں میں اضافہ سے زیادہ ٹیکس سلیب بدل کر ان پر بوجھ ڈالا گیا۔پٹرولیم لیوی میں اضافہ سے غریب آدمی متاثر ہوگا۔انہوں نے کہا کہ زراعت ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔اس شعبہ کو بجٹ میں نظر انداز کیاگیا۔ملک کو معاشی مشکلات سے صرف زرعی شعبہ نکال سکتا ہے۔چشمہ رائیٹ بنک لفٹ پروگرام کو پنجاب تک توسیع دی جائے یہ اچھا پروگرام ہے۔اس سے ہزاروں ایکڑ اراضی سیراب ہورہی ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے رکن ریاض فتیانہ نے کہا کہ ہر تحصیل میں سرکاری یونیورسٹی اور ہر ضلعی سطح پر میڈیکل کالج بنایا جائے،تعلیم کو ہم نے کمرشل کرکے نجی شعبہ کو دے دیاگیا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں سے نوجوان ،سرمایہ اور ٹیلنٹ بھی باہر جارہا ہے۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے سالانہ ساڑھے 9 سو فیکٹریاں لگ سکتی ہیں۔اس جانب توجہ دی جائے۔انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی کی وجہ غربت،بے روزگاری ہے۔مدین کا واقعہ شرمناک ہے اس ملک میں کوئی محفوظ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ 10 لاکھ صنعت کار باہر چلے گئے ہیں۔ہمارا برین ڈرین ہورہا ہے۔اس مایوسی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جان ومال کی حفاظت، روزگار اور انصاف ایک ریاست کی ذمہ داری ہے۔ہم سے بعد آزاد ہونے والے ملک آگے بڑھ چکے ہیں۔اقتصادی ترقی اور جموریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔تمام سیاسی جماعتوں کی پبلک فنڈنگ کی جائے یہاں تمام سیاسی جماعتیں اے ٹی ایم کی محتاج ہیں۔معیشت مستحکم ہوگی تو پاکستان مضبوط ہوگا۔

سید وسیم حسین نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اس ایوان میں بیٹھے لوگ کروڑوں روپے خرچ کرکے یہاں آئے ہیں،بجٹ کا عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں۔19000 ارب روپے کا بجٹ ہے۔78 ہزار ارب روپے کا قرضہ ہے۔130 اضلاع ہیں،پی ایس ڈی پی میں آبادی کے اعتبار سے رقم نہیں رکھی گئی۔انہوں نے کہا کہ کراچی کو ترقی سے محروم رکھا گیا۔جس کو جو حق ہے وہ اس کو ملنا چاہیے۔سانحہ سازگار کا ہمیں دکھ ہے۔30 ستمبر کو حیدرآباد میں 300 لوگوں کو بھون دیاگیا۔اس کا حساب کون دے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قرض کو اتارنا چاہیے۔امیروں پر ٹیکس لگایا جائے۔پراپرٹی پر ٹیکس لگایا جائے۔پراپرٹی کی ویلیو کے مطابق اس پر ٹیکس لگایا جائے۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی صرف انسانوں کو مارنے کانام نہیں معیشت کی تباہی اور غربت بھی دہشتگردی ہے۔انہوں نے کہ ہمیں کہا جارہا ہے کہ یہ فارم 47 والے ہیں،میرا چیلنج ہے کہ یہ لوگ این اے 202 سے میرے مقابلہ میں الیکشن لڑکر دیکھ لیں۔ہم فارم 47 والے نہیں 1947 والے ہیں۔ہمارے اجداد نے پاکستان کے لئے قربانیاں دی ہیں۔انہوں نے حیدرآباد کے ائیرپورٹ کو فعال بنانے، حیدر آباد سکھر اور حیدر آباد کراچی موٹر وے بنانے کا مطالبہ کیا۔ پیپلز پارٹی کے رکن سید طارق حسین نے کہا کہ مشکل حالات میں بجٹ پیش کرنے پر اقتصادی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے،نجکاری سے 30 ارب روپے کا ہدف رکھا گیا ہے،خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری سے کیا 30 ارب روپے ملیں گے؟بجٹ میں دیئے گئے اعداد وشمار حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔وفاق ہم سب کا ہے،یہاں سے سب کو مساوی حصہ دیاجائے،سی پیک پر تمام جماعتوں نے مل کر کام کیاہے۔یہ خوش آئند ہے۔ہم سب کو میثاق معیشت کر لئے مل بیٹھنا چاہییے۔موسمی پالیسیوں کی بجائے طویل المدتی پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔پی ٹی آئی کے دور میں ہمارے دوست ممالک ہم سے ناراض ہوئے، بلاول بھٹو نے انہیں راضی کیا۔

نوابزادہ جمال رئیسانی نے کہا کہ نوجوانوں کے مستقبل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے،پاکستان کی آبادی کا 64 فیصد نوجوان ہیں،ان کے بجٹ میں کوئی پالیسی نہیں۔90 لاکھ نوجوان منشیات کا شکار ہیں اس سے نمٹنے کے لئے کوئی پالیسی نہیں۔ایسے حالات میں نوجوان دہشت گرد عناصر کے جذباتی نعروں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ کوئٹہ میں دانش سکول بنایا جائے،ہمارے صوبے میں سکولز میں عمارتیں اور بنیادی سہولیات نہیں۔ صوبے کو صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔جمیعت علما اسلام پاکستان کی رکن عالیہ کامران نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے وفاقی بجٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا اوراین ایف سی ایوارڈ پرنظرثانی کامطالبہ یا۔مسلم لیگ ن کے رکن سیدہ نوشین افتخار نے کہا کہ چوڑیوں کو عورتوں کی کمزوری سے تشبیہہ دینے والے ڈسکہ کا الیکشن اسی زور بازو پر جیت کر یہاں آئیں۔انتخابات پر تحفظات کا اظہار کرنے والے 2018 کا الیکشن بھول گئے ہیں۔اپوزیشن کی جانب سے بجٹ پر کوئی بات نہیں کی گئی۔ان کو پاکستان کی ترقی کی تکلیف ہے۔انہوں نے کہا کہ مشکل حالات اور محدود مسائل کے باوجود بہترین بجٹ پیش کیاگیا۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے وعدہ خلافی کی گئی جس سے ملک اورمعیشت کو نقصان پہنچایا گہا۔ انہوں نے کہاکہ معاشی استحکام کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔نواز شریف اور ان کی ٹیم قوم کو تمام بحرانوں سے نکالے گی۔

سنی اتحادکونسل کی شاندانہ گلزار نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستان کے لئے قربانیاں دیں،بجٹ میں کتابوں، کمیپیوٹرز،چیرٹی ہسپتالوں پر ٹیکس لگائے گئے ہیں،ادویات کے خام مال پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔پی ایس ڈی پی میں مختص پراجیکٹ 23 سال میں مکمل ہوئے۔انہوں نے کہاکہ غریب عوام تعلیم اور صحت مانگ رہے ہیں۔ جاوید حنیف نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سوات کے واقعہ پر سنجیدگی سے غور کیاجائے،اداروں پر اعتماد ختم ہورہا ہے،لوگ قانون ہاتھ میں لیا جارہا ہے اس بارے میں غور کیاجائے۔عزم استحکام آپریشن کی سب کوحمایت کرنا چاہئیے بدامنی میں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوسکتی،سکھر بیراج پاکستان کی معیشت کے لئے اہم ہے، اس کی بحالی کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔کراچی میں 12 بارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ کسی کے کنٹرول میں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریٹیل، زراعت اور ہول سیل پر کوئی ٹیکس نہیں جو معیشت کا 52 فیصد ہے۔کم سے کم اجرت 50 ہزار روپے ہونی چاہیے۔

سنی اتحاد کونسل کے رکن نثار جٹ نے کہا کہ بجٹ میں اتحادیوں کو اعتماد میں نہیں لیاگیا،بجٹ میں کاشتکاروں کے لئے کچھ نہیں رکھاگیا، 5 ایکڑ سے کم کے کاشتکار کو ٹنل فارمنگ کے لئے بلاسود قرضے دیئے جائیں،ٹیوب ویل کو سولر پینل پر منتقل کیاجائے۔ایم کیوایم کی مہتاب اکبر راشدی نے کہا جن لوگوں کو ٹیکس دینا چاہیے کیا وہ ٹیکس دیتے بھی ہیں یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ جب ہر روز قانون اور قواعد تبدیل ہوتے رہیں گے تو پھر استحکام کیسے آسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ریسرچ اور تحقیق کے لئے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی حالانکہ یہ سب سے اہم شعبہ ہے۔انہوں نے کہا کہ تعلیم بالخصوص ہائرایجوکیشن کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔ اساتذہ کو پینشن دینے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔انہوں نے تجویز دی کہ قرضوں پر انحصار کم کرنا چاہیے ہمیں اپنے وسائل پر اپنا گزارا کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اٹھویں ترمیم کے بعد وہ تمام وزارتیں وفاق سے ختم کر دیں جو صوبائی دائرہ کار میں اگئی ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کے رکن جنید اکبر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں عوام اور ملک کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔1500 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیے گئے ہیں۔ارے پتی اور کروڑ پتی لوگوں کو ریلیف دیا گیا ہے۔تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس مزید بڑھا دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کے پی میں آپریشن پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ سابق فاٹا اور پاٹا میں تعلیم اور صحت کی سہولیات میں اضافہ کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے رکن فتح اللہ خان نے کہا کہ ہم نے حلف اٹھا رکھا ہے کہ ہم یہاں جو بھی فیصلے کریں گے اس میں اپنے عوام کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔بجٹ سازی میں ہم سے مشورہ نہیں کیا گیا حالانکہ بجٹ سے پہلے ہم سے اپنے اپنے علاقہ کی ترجیحات جاننا ضروی تھا۔انہوں نے کہا کہ ڈیر اسماعیل خان میں لیفٹ کینال کے لیے 18 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس کے لیے وہ وزیر منصوبہ بندی و ترقی اور وزیر خزانہ کے شکر گزار ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاک افواج کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں دفاع کے لیے جو رقم رکھی گئی ہے وہ قابل تحسین ہے انہوں نے کہا کہ پاک افواج مضبوط ہیں اور مکمل دفاعی صلاحیت رکھتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری مائیں بہنیں گندا پانی پینے پر مجبور ہیں جس میں 70 فیصد آرسینک پایا جاتا ہے، ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے ہمارے لوگوں کو پینے کا صاف پانی دیا جائے۔

عادل خان بازئی نے کہاکہ بجٹ میں بلوچستان میں سوئی کشمورروڈ کے علاوہ کوئی نیامنصوبہ نہیں ہے، صوبہ میں بجلی اورگیس کی طویل لوڈشیڈنگ جاری ہے، ترقیاتی بجٹ مقامی حکومتوں کوملناچاہئیے۔صوبہ کواقتصادی راہداری کی ضروت ہے۔سی پیک کی بنیادبلوچستان ہے مگرگوادرمیں ابھی تک پینے کے پانی کامسئلہ حل نہیں ہوا۔

متعلقہ آرٹیکل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button