سینیٹ سے منظور کردہ امن عامہ کا بل کسی بھی طرح پرامن سیاسی سرگرمیوں کے خلاف نہیں، مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی کی پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سینیٹ میں پارلیمانی پارٹی کے قائد سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ سینیٹ سے منظور کردہ پرامن اجتماع اور امن عامہ کا بل کسی بھی طرح پرامن سیاسی سرگرمیوں کے خلاف نہیں، چاروں صوبوں میں پہلے ہی ایسے قوانین موجود ہیں جبکہ اسلام آباد میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ اپوزیشن نے اس قانون پر پنڈورہ باکس کھولنے کی کوشش کی۔ ہم نے اپوزیشن کی تمام باتیں تحمل سے سنیں، سارا دن جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کرنے والوں میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ اس کا جواب بھی سن لیتے۔
جمعہ کو یہاں پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ آج یوم دفاع کے موقع پر میں اپنی اور اپنی جماعت کی طرف سے شہدائ، غازیوں اور مسلح افواج کو سلام اور خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مسلح افواج نے نہ صرف وطن اور قوم کے لئے شاندار خدمات سرانجام دی ہیں بلکہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں ملک کو آگے لے جانے کا بھی کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہداءنے اس وطن کی مٹی پر اپنی جانیں قربان کیں، اپنا آج ہمارے مستقبل کے لئے قربان کر دیا۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ آج ایوان سے ”اجتماع و امن عامہ بل 2024“ پر اپوزیشن لیڈر اور دیگر اپوزیشن رہنمائوں نے زوردار تقاریر کیں، یہ بل اکثریت سے منظور ہوا اور اس حوالے سے اپوزیشن نے پنڈورہ باکس کھولنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپوزیشن کی تمام باتیں تحمل سے سنیں، جب جواب دینے کی کوشش کی تو ہماری اس کوشش کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔ جب چیئرمین سینیٹ نے مجھے فلور دیا تو میرے تقریر کرنے سے پہلے ہی کورم کی نشاندہی کر دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ سارا دن جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، امن و امان کے حوالے سے قانون پر تنقید کرتے رہے لیکن ان میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ اس کا جواب بھی سن لیتے۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو شہداءکے مجسمے توڑنے والے آج شہداءکو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے، ایک سال پہلے انہوں نے انہی شہداءکے مزارات کو نذر آتش کیا، انہیں اس وقت ہوش نہیں آیا کہ یہ کیا کر رہے ہیں؟ آج یہ شہداءکے نام پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں اور دوسروں کو بات نہیں کرنے دیتے اور پھر کہتے ہیں کہ امن عامہ کا قانون کیوں بنایا۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ قانون کسی کے حقوق غصب کرنے کے لئے نہیں، اس قانون کے تحت ہر ایک کو پرامن احتجاج کی آزادی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی سی ٹی کے اندر ایسا کوئی قانون موجود نہیں تھا، چاروں صوبوں میں یہ قانون موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے اندر رہتے ہوئے پرامن احتجاج کی اجازت حاصل ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ چند لوگ آ کر سڑک بند کر کے بیٹھ جائیں اور مریض، ملازمین، سکولوں کے بچے متاثر ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آج جو اس قانون پر تنقید کر رہے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ ہم شاہراہ دستور بند کر دیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو، یہ چاہیں تو کور کمانڈر کا گھر جلا دیں، جی ایچ کیو پر حملہ کر دیں اور کسی قاعدے قانون میں نہ آئیں۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ جو کچھ اپوزیشن کے ساتھ کرتے آئے ہیں، سب کو معلوم ہے، انہیں کسی قاعدے قانون کی ضرورت ہی نہیں، ان کے دور میں اپوزیشن کے لوگ کسی نہ کسی جیل میں بند تھے۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ ان لوگوں نے کس قانون کے تحت مجھے آدھی رات کو گھر سے اٹھایا تھا، آج یہ پارسا بنتے ہیں اور دوسروں کو بات نہیں کرنے دیتے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کیا آپ واقعی کوئی سیاسی جماعت ہیں؟ آپ سیاسی جماعت ہیں تو کسی دوسرے کو بولنے کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے سوال کیا کہ کیا سیاسی اجتماعات پٹرول بم چلاتے ہیں؟ پٹرول بموں سے مذاکرات کرتے ہیں؟ یہ کون سی لاجک ہے؟ ہاﺅس کے اندر ان میں کسی دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ تک نہیں اور اپنے حقوق کے لئے یہ تڑپ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ قاعدے قانون کے تحت جلسے جلوس کریں، قانون سب کے لئے بنتے ہیں لیکن انہیں تو اپنے دور میں کسی قانون تک کی ضرورت نہیں تھی، یہ تو راہ چلتے لوگوں سے کہتے تھے کہ ان کی گاڑی سے ہیروئن نکل آئی، گھر بیٹھے شخص کو یہ اٹھا لیتے تھے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ سینئر صحافیوں نے اپنے کالمز میں اس قانون کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں 200 کے قریب سفارت کار مقیم ہیں، ہم ان سے کہتے ہیں کہ یہاں سرمایہ کاری لائیں، ایسے شہروں میں کون آئے گا جہاں چند قدم چلنا بھی مشکل ہو؟ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے دو سو مقامات پر ایک رات میں حملے کئے اور کہتے ہیں کہ یہ قانون نہ بنائو، یہ قانون کل کو ہماری گردنوں میں پڑے گا۔ ان لوگوں نے بغیر کسی قانون کے ہماری گردنوں میں شکنجے ڈال رکھے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں، جو لوگ جیلوں میں موجود ہیں وہ اپنے کسی نہ کسی کارنامے کی وجہ سے ہیں، ہمارے لئے وہ سیاسی قیدی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ان کے دلوں میں شہداءکی محبت جاگ اٹھی ہے، اگر یہ آج سمجھتے ہیں کہ شہداءکا لہو مقدس تھا، ان شہداءکی قبروں پر جائیں جن کے مجسمے انہوں نے توڑے، ان کی ارواح سے معافی مانگیں اور پھر آ کر بات کریں۔ منافقت اور دوہرے معیار سے کام نہیں چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان کو دنیا جانتی ہے، ان کے چہرے بے نقاب ہو چکے ہیں، یہ لیپا پوتی نہیں کر سکتے، ان کی نفرتیں آج بھی عروج پر ہیں، یہ دنیا کو فریب دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہائوس کے اندر ان کے لب و لہجہ پر افسوس ہوا، انہوں نے میری ذات پر حملے کئے اور جب جواب دینا چاہا تو ان میں سننے کا حوصلہ ہی نہیں تھا، یہ ان کا جمہوری کردار ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں جلسوں کی کوئی پرواہ نہیں، ان کے قائدین ہر روز کبھی عدالت، کبھی جیل کے باہر جلسے کر رہے ہوتے ہیں، جلسے کرنا ان کا حق ہے لیکن جلسے قانون کے دائرے میں رہ کر کئے جائیں۔
انہوں نے 9 مئی کو بھی جلسہ کیا تھا اور اسلام آباد پر چڑھائی کر دی تھی، ڈی چوک میں درخت جلائے، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پرامن طریقے سے جلسہ کرنے چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ لیکن یہ ان کی روایت نہیں ہے۔ اس قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ تین سال کی سزا ہے جو پندرہ دن بھی ہو سکتی ہے اور دو ماہ بھی۔ بار بار جرم کرنے پر دس سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ لوگ اس حوالے سے غلط فہمی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چند لوگوں کے لئے اسلام آباد کے پچیس لاکھ لوگوں کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔