قومی

پاکستان۔چائنا انسٹیٹیوٹ کا عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے 75 سال کی مناسبت سے بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد

سینیٹر مشاہد حسین سید کے زیر قیادت پاکستان۔چائنا انسٹیٹیوٹ نے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے 75 سال کی مناسبت "چائنا ایٹ 75: ترقی، تبدیلی اور عالمی قیادت کا سفر” کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیاجس میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی ۔ اس کانفرنس کے دیگر مقررین میں پاکستان میں تعینات چینی سفیر جیانگ ژی ڈونگ، معروف ماہر اقتصادیات اور سابق گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر عشرت حسین اور وفاقی وزیر برائے سمندری امور قیصر احمد شیخ شامل تھے۔ کانفرنس میں جنوبی ایشیا کی بین الاقوامی نمائندگی بھی شامل تھی جس میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما محبوب عالم، مالدیپ کے رکن پارلیمنٹ احمد طارق اور نیپال کی وفاقی پارلیمنٹ کے رکن اچیوٹ پرساد مینالی شامل تھے۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے چین کے چند منفرد پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے چینی قوم کے پرامن عروج پر روشنی ڈالی جس میں کسی بھی قسم کی جارحیت، قبضہ یا نوآبادیات کے بغیر یہ ممکن بنایا گیا ہے اور اس سے چین کی 5000 سال پرانی تہذیب کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے پاک چین تعلقات کو بے مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ گہرے سٹریٹجک تعاون پر مبنی ہیں۔ چین کی حالیہ تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین نے چین کے 75 سال کا خلاصہ 3آر ایس کے طور پر کیا، نمبر ایک انقلاب چیئرمین ماؤ کے تحت، نمبر دو اصلاحات ڈینگ ژاؤپنگ کے تحت اور نمبر تین اب پرامن عروج صدر شی جن پنگ کے تحت۔ چین کے عروج کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے قیادت کااعلیٰ معیار، پالیسی میں تسلسل، کورس میں تبدیلی کی منفرد صلاحیت، دوسروں سے سیکھنے کی صلاحیت اور پُرامن خارجہ پالیسی کواہم اسباب قرار دیا۔

ماہر اقتصادیات اور سابق گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر عشرت حسین نے چین کے غیر معمولی ترقی پر روشنی ڈالی اور کہا کہ چین نے دیہی معیشت سے شہری معیشت میں اور کمانڈ سے مارکیٹ کی طرف منتقل ہو کر بے مثال ترقی حاصل کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چین کی کامیابی نے مغربی جمہوری ماڈل کو چیلنج کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے اندر سیاسی مرکزیت اقتصادی غیر مرکزیت کے ساتھ بقائے باہمی کر سکتی ہے جہاں 70 فیصد سے زائد عوامی اخراجات صوبائی حکومتوں کے ذریعے انجام دیے جاتے ہیں، 1.4 ارب کی آبادی کے باوجود چین نے خود کو عالمی معیشت میں ضم کر لیا اور سب سے بڑی برآمدی منزل اور 120 سے زائد ممالک کے لئے ایک کلیدی تجارتی شراکت دار بن گیا۔

ڈاکٹر عشرت حسین نے چین کی بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کی تعریف کی جس نے ملک کو ریلوے اور بندرگاہوں کے ذریعے عالمی مارکیٹوں سے جوڑا اور اقتصادی ترقی کو مزید فروغ۔ انہوں نے میرٹ پر مبنی تقرریوں، انسانی وسائل میں سرمایہ کاری اور تعلیم و ٹیکنالوجی میں پیشرفت کو چین کی کامیابی کے اسباب قرار دیاجس میں چینی طلباء جدید ٹیکنالوجی میں بیرون ملک برتری حاصل کر رہے ہیں اور امریکہ میں 50 فیصد سے زائد پی ایچ ڈی طلباء چینی ہیں۔ پاکستان پر اس کے مثبت اثرات کو تسلیم کرتے ہوئےڈاکٹر عشرت حسین نے سی پیک کو قرضوں کا جال قرار دینے کی من گھڑت خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے چین کی سرمایہ کاری سے نمایاں فائدہ اٹھایا ہے جب کہ چین کا عدم مداخلت کا رویہ اور دیگر ممالک کی ضروریات کے مطابق ردعمل اس کی عالمی قیادت کو مضبوط کرتا ہے۔

اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئےپاکستان کے وفاقی وزیر برائے سمندری امور قیصر احمد شیخ نے پاکستان اور چین کے درمیان دیرپا تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے دونوں ممالک کو "آئرن برادرز” قرار دیا جو سدا بہار دوستی کے مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے سی پیک میں گوادر بندرگاہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ ترجمان وزارت خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے ساؤتھ-ساؤتھ تعاون کے لئے پاکستان کے پختہ عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کے درمیان مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے چین کے ترقیاتی سفر سے سبق حاصل کرتے ہوئے استعداد میں اضافہ نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے ساؤتھ- ساؤتھ تعاون کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لئے ایک گلوبل ساؤتھ کی قیادت میں ایجنڈے کی ضرورت پر زور دیا جو ابھی تک بیرونی مدد پر انحصار کی وجہ سے پوری طرح سے حاصل نہیں کی جا سکی۔

انہوں نے کہا کہ اقتصادی تبادلہ، موسمیاتی تبدیلی اور سفارت کاری جیسے شعبوں میں چین کی فعال شرکت نے ساؤتھ-ساؤتھ تعاون کو مضبوط کیا ہےاور چین گلوبل ساؤتھ ممالک کے درمیان براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں ایک قائد کے طور پر ابھرا ہے۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما محبوب عالم نے 2013 سے چین کے عالمی طاقت بننے کے نمایاں عروج پر روشنی ڈالی اور اس ترقی کو قومی تجدید کے مرکوز وژن سے متصل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ چین 21ویں صدی کی قیادت کے لئے اچھی پوزیشن میں ہے جس میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) عالمی ترقی کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ عالم نے ایشیا بھر میں اسٹریٹجک شراکتوں کو فروغ دینے کے لئے چین کے عزم پر روشنی ڈالی جس کی مثال بنگلہ دیش کے ساتھ بی آر آئی کے فریم ورک کے تحت تعاون شامل ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ بنگلہ دیش کی سٹریٹجک محل وقوع بی آر آئی کے تحت بڑھتی ہوئی کنیکٹیویٹی کے چینی وژن کے لئے بہت اہم ہےجس سے چین کی مشترکہ ترقی اور علاقائی انضمام کے عزم کا اعادہ ہوتا ہے۔

اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف ایگزیکٹو افسر ایشین انسٹی ٹیوٹ آف ایکوسویلائزیشن ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ شکیل احمد رامے نے غربت کے خاتمے کے حوالے سے چین کے تبدیلی لانے والے طریقہ کار کو اجاگر کیا اور اس کی کامیابی کو عملی اور عمومی فہم پر مبنی حل قرار دیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ چین نے ابتدا میں زمینی اصلاحات کو ترجیح دی جس کے بعد پیداوار کی قیمتوں میں اضافے اور لاگتوں میں کمی کے لئے سٹریٹجک ایڈجسٹمنٹ کی گئی جس سے اقتصادی ترقی کے لئے سازگار ماحول پیدا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ 1949 میں چین کی خواندگی کی شرح محض 20 فیصد تھی جو جامع تعلیمی اقدامات کی بدولت اب تقریباً 100 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ صحت کو بھی ایک اہم شعبے کے طور پر توجہ مرکوز کی گئی جس سے ایک صحت مند ورک فورس اور آبادی کو یقینی بنایا گیا۔ انفراسٹرکچر بھی ایک اہم ستون تھا جس میں چین اب 177,000 کلومیٹر کی شاہراہوں کا حامل ہے اور ملک کا 97 فیصد حصہ جی4 نیٹ ورک سے منسلک ہے جو ملک بھر میں جاری معاشی و سماجی ترقی اور کنیکٹیویٹی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق سفارتکار اور وزیراعظم کے سابق خصوصی معاون برائے خارجہ امور طارق فاطمی نے چین کے عروج کو عالمی استحکام کے لئے خطرہ سمجھنے کی غلط فہمیوں کو رد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ چین نے کبھی بھی بیرونی جارحیت کی کوشش نہیں کی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ "خطرہ” کی کہانی ان لوگوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے جو ایک یک قطبی عالمی نظام کی وکالت کرتے ہیں۔ مغربی طرز کے برعکس طارق فاطمی نے کہا کہ چین کے عالمی تعلقات کا ماڈل پرامن بقائے باہمی اور باہمی ترقی کو فروغ دیتا ہے جس سے عالمی استحکام کے فروغ میں چین کے منفرد نقطہ نظر ظاہر ہوتا ہے۔سابق سیکرٹری خارجہ اور چیئرمین صنوبر انسٹیٹیوٹ اعزاز احمد چوہدری نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہونے کے باوجود چین خود کو گلوبل ساؤتھ کا حصہ مانتا ہےاور ترقی پذیر ممالک کو اپنی صلاحیتیں مضبوط کرنے اور بیرونی سہولتوں پر انحصار کم کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے ترقی پذیر ممالک چین کے اس نقطہ نظر سے استفادہ حاصل کرتے ہیں اور اسے خود انحصاری اور استقامت کے نمونے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جیسے جیسے چین اور دیگر ترقی پذیر ممالک متحد ہو رہے ہیں انہیں مغرب کی جانب سے تنقید اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے حوالے سے جو اکثر غلط طور پر عالمی معیشت کی "ڈی-ڈالرائزیشن” کی کوششوں کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مغرب کو تسلیم کرنا چاہیے کہ عالمی حالات بدل رہے ہیں۔ پاکستان ایک اہم اقتصادی مقام پر ہےاور انہوں نے پاکستان کے ایس سی او میں کردار پر خوشی کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ پاکستان کو جلد ہی برکس میں شامل کیا جائے گا جس سے عالمی اتحادوں میں پاکستان کی مطابقت کا اظہار ہوتا ہے۔

مالدیپ کے رکن پارلیمنٹ احمد طارق نے عالمی سیاست کو تشکیل دینے اور دنیا کو کثیر قطبی نظام کی طرف لے جانے میں چین کے اہم کردار کو اجاگر کیا جس میں صدر شی جن پنگ اس تبدیلی کی قیادت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بدلتا ہوا عالمی نظام چھوٹے ممالک کو نظر انداز نہیں کرتا بلکہ انہیں عالمی ترقی کے منظر نامے میں شامل کرتا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے ذریعے چین نے اعتماد پر مبنی تعلقات کو فروغ دیا ہے اور شراکت دار ممالک بشمول مالدیپ میں بنیادی ڈھانچے کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ احمدطارق نے چین کی علاقائی سالمیت کے احترام کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اس کا طریقہ کار تنازعات کی پیچیدگیوں سے آزاد ہے۔ مالدیپ اور چین کے درمیان تعاون باہمی ہے جس میں دونوں ممالک مقامی کرنسیوں میں تجارت کے معاہدوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جس سے تعلقات مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔

مالدیپ کی اسٹریٹیجک حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) کو معاشی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں ان کی بڑھتی ہوئی شراکت داری کا ثبوت قرار دیا۔صدر اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ ڈاکٹر میجر (ر) جنرل رضا محمد نے "قواعد پر مبنی عالمی نظام” کے تصور پر سوال اٹھایا کہ اصل میں کون سے قوانین اور کس کا نظام بین الاقوامی تعلقات کی حکمرانی کرتا ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ”پرسونا نان گراٹا” قرار دینے کے حالیہ اعلان کو بین الاقوامی اصولوں کے چنیدہ اطلاق کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا۔ قومی سلامتی کی حکمت عملیوں کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین کا نقطہ نظر "قومی احیاء” پر مرکوز ہے جو داخلی ترقی اور عدم مداخلت پر مبنی ہے جبکہ امریکہ "سب سے پہلے امریکہ” کے اصول کو اپناتا ہے جو طاقت کے ذریعے امن اور امریکی انفرادیت کی وکالت کرتا ہے۔

ڈاکٹر رضا نے کہا کہ امریکی حلقوں میں یہ بات اچھی طرح سے تسلیم کی گئی ہے کہ چین کے پاس مختلف شعبوں میں امریکہ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہےجس سے چین ایک اہم عالمی ہم منصب کی حیثیت اختیار کر رہا ہے۔اس کانفرنس میں پاکستان-چائنا انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے”چین کے 75 سال: ماؤ زیڈونگ سے شی جن پنگ تک” کے عنوان سے ایک اہم رپورٹ بھی لانچ کی جس میں پاکستان اور چین کے معروف ماہرین کے تحریر کردہ بصیرت آمیز ابواب شامل ہیں۔ کانفرنس میں 250 سے زائد شرکاء نے شرکت کی جن میں اکیڈیمیا، تھنک ٹینکس ،میڈیا ، صنعت کار اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنےوا لے افراد شامل تھے۔ اس کے علاوہ اس تقریب میں متعدد سفارتخانوں کے سفراءنے بھی شرکت کی جس میں عالمی سطح پر چین کے مثبت کردار پر روشنی ڈالی گئی۔

متعلقہ آرٹیکل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button