فلسطین اور بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں غیر ملکی قبضے میں خواتین اور لڑکیوں کے مصائب کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، منیر اکرم
پاکستان نے اقوام متحدہ کی امن کارروائیوں میں خواتین کے کردار کو بڑھانے کے اپنے مضبوط عزم کا اعادہ کرتے ہوئےمطالبہ کیا ہے کہ فلسطین اور بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں غیر ملکی قبضے میں خواتین اور لڑکیوں کے مصائب کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ’’ خواتین، امن اور سلامتی ‘‘کے موضوع پر مباحثے میں بتایا کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف سب سے زیادہ سنگین خلاف ورزیاں غیر ملکی قبضے کے حالات میں ہوتی ہیں کیونکہ قبضے کا ایک مقصد مقبوضہ آبادی کو محکوم بنانا ہوتا ہے، جن میں خواتین اور لڑکیاں سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتی ہیں۔
پاکستان مندوب نے کہا کہ یہ صورتحال بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کی ہے جہاں 1990 میں ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری مرد، خواتین اور بچے مارے گئے تھے۔اس سلسلے میں انہوں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ غیر ملکی قبضے میں خواتین اور لڑکیوں کی سنگین اور ناقابل قبول صورتحال کے خاتمہ کے لئے اقدامات کرے۔اس بحث میں 60 سےزیادہ مقررین نے حصہ لیا اور امن کے عمل میں خواتین کی شمولیت اور برابری کی بنیاد پر فیصلہ سازی میں حصہ لینے پر زور دیا۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ پاکستان پہلا ملک ہے جس نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مشترکہ وعدوں کے اعلامیے کی توثیق کی جس میں خواتین، امن اور سلامتی کی اقوام متحدہ کی امن فوج کو مضبوط بنانے کے لیے مرکزی ترجیح کے طور پر شناخت کی گئی،انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ملک کے سیاسی عزم کو عملی اقدامات سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 2019 میں اپنی پہلی مرتبہ خواتین پر مشتمل ٹیم افریقہ بھیجی ، جس نے مقامی طلبا، اساتذہ اور خواتین کے لیے پیشہ ورانہ تربیت سمیت متعددکامیاب اقدامات کئے ہیں۔
حالیہ برسوں میں امن دستوں میں پاکستانی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جنہوں نے انتہائی مشکل حالات میں ڈاکٹروں، نرسوں اور پولیس افسران کے طور پر خدمات انجام دی ہیں اوران میں شامل شہزادی گلفام نے 2011 میں پہلی مرتبہ بین الاقوامی خاتون پولیس امن کیپر ایوارڈ حاصل کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے اعلیٰ تربیت یافتہ اقوام متحدہ کے امن دستے بشمول خواتین امن دستے، امن فوج کے مینڈیٹ کو پورا کرنے اور آبادی کے تمام کمزور طبقوں سمیت خواتین کو تشدد سے بچانے کے لیے اعلیٰ ترین خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے دنیا بدستور ایک انتہائی خطرناک جگہ بنی ہوئی ہےجہاں خواتین نہ ختم ہونے والی جنگوں اور طویل تنازعات، جنسی تشدد،تشدد اور تکالیف کا شکار ہیں جن میں وہ انتہائی خطرات سے دوچار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ بھارتی قابض افواج کشمیری خواتین کو نشانہ بناتی ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر ،بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی 2018 اور 2019 کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی قابض افواج نےدھمکی اور جبر کے علاوہ عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان واقعات میں سب سے نمایاں 1991 میں کنن اور پوش پورہ کے جڑواں کشمیری دیہات میں درجنوں کشمیری خواتین کے ساتھ بڑے پیمانے پر عصمت دری کا واقعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری خواتین کی پریشانی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ان کے خاندان کے افراد بشمول بچوں کو آدھی رات کے چھاپوں میں اغوا کیا جاتا ہے،انہیں غیر قانونی طور پر حراست میں لیا جاتا ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور نقل و حرکت اور مواصلات پر مسلسل پابندیاں عائد کیا جاتی ہیں اور وہ انتہائی بے بسی اور لاچارگی سے اپنے بچوں کو مظالم اورمصائب کا نشانہ بنتے دیکھتے رہنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غیر ملکی قبضے کے تحت کشمیر، فلسطین اور دیگر جگہوں پر خواتین کی تکالیف کو ختم کرنے کے لیے خواتین ، امن اور سلامتی کے ایجنڈے کو ترجیح دینا چاہیے۔بحث کا آغاز کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے کہا کہ خواتین کی نمائندگی امن مذاکرات اور تنازعات انتہائی پیچیدہ تنازعات کے حل کی کوششوں میں انتہائی کم ہے ۔ انہوں نے تاریخی اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1992 اور 2019 کے درمیان مذاکرات کاروں میں خواتین کی تعداد 13 فیصد اور امن عمل میں ثالثوں میں 6 فیصد تھی۔ امینہ محمد نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ہم افغانستان اور دیگر جگہوں پرخواتین کے حقوق اور ہر موقع پر خواتین کی شمولیت کی حمایت کرنے کے اپنے عزم کو تقویت دیں ۔