کاروباری

بینک دولت پاکستان نے اپنی اہم سالانہ مطبوعہ مالی استحکام کا جائزہ برائے 2023ء جاری کردیا

بینک دولت پاکستان نے اپنی اہم سالانہ مطبوعہ مالی استحکام کا جائزہ (ایف ایس آر) برائے 2023ء جاری کردیا جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956ء ترمیم شدہ جنوری 2022ء کی دفعہ 39 کی ذیلی دفعہ (3) میں درج شرائط کے مطابق تیار اور شائع کی گئی ہے۔

’جائزہ‘ میں بینکوں، خرد مالکاری بینکوں (ایم ایف بیز)، نان بینک مالی اداروں (این بی ایف آئیز)، بیمے، مالی منڈیوں اور مالی منڈیوں کے ڈھانچے (ایف ایم آئیز) سمیت مالی شعبے کے مختلف اجزا کی کارکردگی اور خطرے کی جانچ پیش کی گئی ہے۔ اس میں قرضے اور مالی خدمات کے اہم استعمال کنندہ یعنی غیرمالی کارپوریٹ سیکٹر کی مالی صحت کو بھی جانچا گیا ہے۔

سٹیٹ بینک سے جاری اعلامیہ کے مطابق جائزے میں بتایا گیا ہے کہ خصوصاً 2023ء کی پہلی ششماہی کے دوران بڑھتی ہوئی مہنگائی، زرِ مبادلہ کی کم آمد اور بیرونی کھاتے اور ملکی کرنسی پر پڑنے والے دباؤ، اور کاروبار کے پست اعتماد کے باعث میکرو اکنامک ماحول ہمت آزما رہا۔ تاہم بڑھتے ہوئے عدم توازن کو درست کرنے کے لیے 2023ء کی دوسری ششماہی کے دوران جو پالیسی اقدامات اور ضوابطی کوششیں کی گئیں اور ان کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف سے 9 ماہ کا جو اسٹینڈ بائی معاہدہ طے پایا اس سے میکرو اکنامک حالات کو بہتر کرنے میں مدد ملی۔

سال کے اختتام تک مہنگائی کم ہونا شروع ہوئی، اقتصادی نمو بحال ہوئی، اور شرحِ مبادلہ مستحکم ہوئی۔ اس تناظر میں مالی شعبے میں مضبوط نمو اور کارکردگی دیکھی گئی اور اس نے اپنی مالی صحت اور عملی لچک کو برقرار رکھا۔ مالی شعبے کے اثاثہ جات 2023ء میں 27.0 فیصد بڑھ گئے جس میں بنیادی حصہ بینکوں کا تھا۔جائزے کے مطابق زیر جائزہ مدت کے دوران مالی منڈیوں میں تغیر پذیری بلند سطح پر رہی تاہم بینکاری کا شعبہ لچکدار رہا اور اس میں 29.5 فیصد نمو ہوئی۔ اثاثوں میں اضافہ بنیادی طور پر حکومتی تمسکات میں سرمایہ کاریوں کی بدولت ہوا،جبکہ دباؤ کا شکار میکرو مالی حالات کے پس منظر میں نجی شعبے کے قرضوں میں کمی دیکھی گئی۔

بینکوں کی بیلنس شیٹ میں بیشتر توسیع ڈپازٹس کے ذریعے ہوئی، جن میں زائد منافع کے ماحول میں 20 برسوں کی بلند ترین نمو ہوئی ۔ اس سے قطع نظر ، خطرۂ قرض زیادہ تشویش کا باعث نہیں کیونکہ قرضوں میں غیر فعا ل قرضوں (این پی ایلز) کا تناسب معمولی اضافے کے ساتھ آخر دسمبر 2023ء میں بڑھ کر 7.6 فیصد تک پہنچ گیا، جو دسمبر 2022ء میں 7.3 فیصد تھا، اور تموین (provisioning) کی کوریج مزید بہتری کے ساتھ 92.7 فیصد ہو گئی۔ بلند شرحوں اور کاسبی اثاثوں (earning assets) میں توسیع کے بل بوتے پر بینکاری شعبے کی آمدنی عمدہ رہی، جس سے اس کی ادائیگی قرض کی پوزیشن کو تقویت ملی۔ لہٰذا، آخر دسمبر 2023ء تک شرح کفایت سرمایہ (CAR) بہتر ہو کر 19.7 فیصد تک پہنچ گئی جو کم از کم ضوابطی شرائط سے خاصا زیادہ ہے۔ اسلامی بینکاری کے اداروں نے بھی 2023ء میں اپنی نمو کی رفتار کو برقرار رکھا۔ مضبوط آمدنی اور اثاثہ جاتی معیار کے اظہاریوں کی اطمینان بخش صورت حال کے ساتھ اسلامی بینکوں کی لچک میں مزید بہتری آ گئی۔

تاہم ، 2023ء میں خرد مالکاری بینکوں کے شعبے کو دباؤ کا سامنا رہا۔جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ 2023ء میں غیر بینک مالی شعبے نے بھی صحت مند کارکردگی دکھائی۔ ترقیاتی مالی اداروں (ڈی ایف آئیز) اور نان بینک مالی ادارو ں(این بی ایف آئیز) کے اثاثوں میں مضبوط اضافہ دیکھا گیا۔ مزید برآں، معاشی سرگرمیوں میں سُست روی کے باوجود بیمہ شعبے کے اثاثوں اور خام پریمیم میں اضافہ ہوا۔غیر مالی کارپوریٹ شعبے کی مجموعی صورتِ حال حوصلہ افزا تھی کیونکہ ان کے ادائیگی قرض کی صلاحیت کے اظہاریوں اور قرض واپسی کی استعداد تسلی بخش رہی۔ بالخصوص، بینکوں کے بڑے قرض گیروں نے ادائیگی کی مستحکم صلاحیت کا مظاہرہ کیا اور زیر جائزہ سال کے دوران کوئی بڑی نادہندگی دیکھنے میں نہیں آئی۔مالی استحکام کا جائزہ 2023 ءکے دوران مالی منڈیوں کے ڈھانچے (ایف ایم آئیز) کی عملی لچک بھی اجاگر کرتا ہے۔

خردہ ادائیگیوں میں ای بینکنگ ٹرانزیکشن کی نمو میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا۔ اہم بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے دکانداروں اور کاروباری اداروں کے لیے ڈجیٹل ادائیگی کی قبولیت کو آسان بنانے کے لیے ’راست ‘کے ’پرسن ٹو مرچنٹ (پی 2 ایم) موڈ‘ کا تیسرا مرحلہ نافذ کرنے میں پیش رفت کی ۔مالی استحکام کے لیے خطرات کی تیزی سے بدلتی ہوئی حرکیات کے پیشِ نظر اسٹیٹ بینک اپنے ضوابطی اور نگرانی کے نظام کو فعالیت کے ساتھ مضبوط بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ مستقبل میں، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ میکرو اکنامک دباؤ کے متوقع طور پر معتدل ہونے اور شعبہ بینکاری کے مضبوط بفرز اور انتظام ِ خطر کی صلاحیتوں کی بنا پر مالی استحکام کے لیے مجموعی خطرات کو سنبھالا جاسکتا ہے۔دباؤ کی جانچ کے حالیہ نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ شعبہ بینکاری درمیانی مدت میں شدید لیکن معقول میکرو فنانشل دھچکےبرداشت کرنے کی مناسب لچک رکھتا ہے۔

تاہم، ملک کی میکرو اکنامک بنیادوں میں پائیدار بہتری اور مالی شعبے کی لچک اور کارکردگی دونوں کے لیے ساختی اصلاحات پر پالیسی کا تسلسل اہم رہے گا۔

متعلقہ آرٹیکل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button