عالمی برادری تجارتی جنگ سے گریز کرے ،اس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، آئی ایم ایف
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ عالمی برادری تجارتی جنگ سے گریز کرے کیونکہ ایسی جنگ کی صورت عالمی معیشت کے حجم میں فرانس اور جرمنی کی مجموعی معیشت کے برابر کمی آسکتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق اگر دنیا کی بڑی معیشتوں کے درمیان وسیع البنیاد تجارتی جنگ شروع ہو جاتی ہے تو عالمی معیشت پر اس کے بے حد منفی اثرات مرتب ہو ں گے اور اس کے حجم میں فرانسیسی اور جرمنی کی معیشتوں کے مجموعی حجم کے برابر کمی آسکتی ہے۔ آئی ایم ایف کے اس انتباہ کا پس منظر امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے وہ بیانات ہیں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کامیابی کی صورت میں وہ امریکا میں تمام درآمدات پر 20 فیصد تک یونیورسل ٹیکس یا ٹیرف متعارف کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
دوسری طرف یورپی یونین نے ڈونلڈ ٹرمپ کی آئندہ انتخابات میں کامیابی اور ان کی طرف سے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی طرف پیش رفت کی صورت میں جوابی کارروائی کے طورپر امریکی درآمدات پر بھاری ٹیکس عائد کرنے کی ابھی سے منصوبہ بندی شروع کر دی ہے ۔امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ٹیرف ڈکشنری میں سب سے خوبصورت لفظ ہے اور عالمی منڈیوں اور مختلف ممالک کے وزرا ئے خزانہ نے اب ان کےخیالات پر عملدرآمد کے امکانات پر سنجیدگی سے غور شروع کر دیا ہے۔آئی ایم ایف کی ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر گیتا گوپی ناتھ نے کہا کہ ان کا ادارہ ابھی تک ڈونلڈ ٹرمپ کے تجارتی منصوبوں کی تفصیلات کا اندازہ نہیں لگا سکتا لیکن اس کا خیال ہے کہ ٹیرف کی بہت ہی سنگین ڈی کپلنگ اور وسیع پیمانے پر استعمال عالمی جی ڈی پی میں 7 فیصد کے قریب تک کمی کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ درآمدات پر اس قدر بھاری ٹیکس عائد کئے جانے کی گزشتہ دو تین دہائیوں میں کوئی مثال موجود نہیں۔ گیتا ناتھ گوپی نے کہا کہ درآمدی ٹیرف میں اس قدر اضافے کے نتیجے میں عالمی سطح پر حکومتوں کے قرضوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہو گا،اس کے ساتھ اس بحران کے آفٹر شاکس بھی ہو ں گے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں مہنگائی کو کم کرنے کے اقدامات کے نتیجے میں دنیا بھر میں ملازمت پیشہ لوگوں کی بڑی تعداد بے روز گار ہو گئی جس کا مطلب یہ ہے کہ اداروں کی ڈائون سائزنگ مہنگائی کے اثرات کو کم کرنے کا کوئی موثر طریقہ نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ حالیہ عرصے کے دوران بے روزگاری کی شرح میں کسی خاص اضافے کے بغیر افراط زر کی شرح میں کمی دیکھی گئی جو ممالک کے مرکزی بینکوں کے لئے اچھی خبر ہے لیکن ہمیں اس وقت دنیا میں بڑھتے عدم استحکام کے پس منظر میں ممالک کی معیشتوں کو منفی اثرات برداشت کرنے کے قابل بنانا ہو گا۔