حکومت کا صنعتکاروں کو نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر سے تحفظ دینے کا فیصلہ

اسلام آباد: حکومت نے مجوزہ صنعتی پالیسی کے تحت صنعتی بجلی کے ٹیرف سے کراس سبسڈی ختم کرنے اور پیک ریٹس کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ برآمدات میں اضافہ کیا جا سکے۔
حکومت نے قوانین میں تبدیلی لانے کا بھی فیصلہ کیا ہے، جن میں ایک جامع انسالوینسی (دیوالیہ پن سے تحفظ) قانون متعارف کرانا شامل ہے۔
وزیرِاعظم کی سطح پر یہ طے پایا ہے کہ صنعتکاروں کو نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کے براہِ راست رابطے سے محفوظ رکھا جائے گا۔ اسی مقصد کے لیے ایس ای سی پی ایکٹ 1947 کی دفعہ 41-B اور دفعہ 42-A میں ترمیم کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے یہ لازمی ہوگا کہ وہ کسی بھی کارروائی سے قبل ایس ای سی پی کی اجازت حاصل کریں۔
ترمیمی مسودے کے مطابق، ریگولیٹڈ اداروں کے خلاف انکوائری، تحقیقات یا کارروائی خواہ وہ اسٹاک ایکسچینجز ہوں، سینٹرل ڈپازٹریز، کلیئرنگ ہاؤسز، نان بینکنگ فنانس کمپنیاں (روایتی یا ڈیجیٹل)، انشورنس کمپنیاں یا بروکرز—بغیر ایس ای سی پی کے ریفرنس کے کسی وفاقی یا صوبائی تحقیقاتی ادارے کی طرف سے نہیں کی جا سکے گی۔
اس کے علاوہ اگر کوئی معاملہ پہلے ہی ایس ای سی پی کے سامنے ہو تو کسی بھی دوسرے ادارے کے پاس اس پر کارروائی کا اختیار نہیں ہوگا۔
ترمیمی مسودہ غیر ملکی سرمایہ کاروں (بشمول نائیکوپ ہولڈرز) کو بھی واضح قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے تاکہ بیرونی اداروں کی من مانی مداخلت سے بچاؤ یقینی بنایا جا سکے۔
حکومتی ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ”پاور ڈویژن صنعتی بجلی کے ٹیرف سے کراس سبسڈی ختم کرے گا اور پیک ریٹس بھی منسوخ کرے گا۔”مجوزہ صنعتی پالیسی کا مسودہ جلد جاری ہونے والا ہے۔
اس کے مطابق، وزارتِ تجارت نے وزارتِ خزانہ کی مشاورت اور وفاقی کابینہ کی منظوری سے برآمد کنندگان کے لیے مقامی ٹیکس و لیویز کے ڈرا بیک (DLTL) اسکیم شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
ایف بی آر نے بھی اربوں روپے کے پھنسے ہوئے ریفنڈز کی ادائیگی کا فیصلہ کیا ہے، جن میں سیلز ٹیکس (موخر ریفنڈ پیمنٹ آرڈرز ، کسٹمز ریبیٹس، انکم ٹیکس اور صوبائی ٹیکس شامل ہیں۔ سیلز ٹیکس ریفنڈز بروقت ادا کیے جائیں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس عمل کو مزید تیز بنایا جائے گا۔