وزیر اعظم شہباز شریف کا ملک میں زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔
بدھ کو وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں رواں برس مون سون اور سیلابی صورتحال کے پیش نظر ملک بھر میں کلائمیٹ ایمرجنسی اور زرعی ایمرجنسی کے نفاذ کی اصولی منظوری دی گئی۔
وزیراعظم نے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور متعلقہ حکام پر مشتمل اجلاس بلانے کا اعلان کیا، جس میں موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات میں کمی اور مستقبل کے لائحہ عمل پر مشاورت ہوگی۔
کابینہ کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں، زرعی زمینوں اور فصلوں کے نقصانات پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ ارکان نے انفراسٹرکچر کی بحالی، کسانوں کی معاونت اور نقصانات کے ازالے سے متعلق تجاویز پیش کیں۔
وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے راتوں رات نہیں نمٹا جاسکتا ، بہت بڑے چیلنجز ہیں سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا ، ایک روڈ میپ بنانا ہوگا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی کو ایک پروگرام کے ساتھ آنے کی ہدایت کی ہے ،پنجاب میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہے،ہزاروں ایکڑ پر فصلیں زیر آب ہیں،سیلاب سے فصلوں کے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔
اس کے علاوہ کابینہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شہداء اور افواجِ پاکستان کے خلاف تضحیک آمیز مواد کی شدید مذمت کرتے ہوئے شرپسند عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت دی۔
وزیراعظم نے کہا کہ شہداء کی قربانیوں کی توہین کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے۔
اجلاس میں بنوں آپریشن کے شہید میجر عدنان اسلم کے لیے بلندی درجات کی دعا بھی کی گئی۔
علاوہ ازیں وزیراعظم نے دوحہ میں اسرائیلی بمباری کی شدید مذمت کرتے ہوئے امیر قطر، شاہی خاندان اور عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔
عوامی ریلیف کے لیے کابینہ نے وزارت پیٹرولیم کی سفارش پر گیس کنکشن کے منتظر صارفین کو آر ایل این جی کنکشن فراہم کرنے کی منظوری دی۔ بتایا گیا کہ ان کنکشنز کے ذریعے صارفین کو ایل پی جی کے مقابلے میں 30 فیصد کم لاگت آئے گی۔
کابینہ نے وزارت ریلوے کی سفارش پر ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کے مابین مشترکہ فزیبلٹی اسٹڈی سے متعلق سہ فریقی فریم ورک معاہدے کی بھی توثیق کی، جسے علاقائی تجارت اور رابطہ کاری کے لیے اہم قرار دیا گیا۔
اجلاس میں اقتصادی رابطہ کمیٹی، بین الحکومتی تجارتی لین دین کمیٹی اور قانون سازی کمیٹی کے فیصلوں کی بھی منظوری دی گئی۔