سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ۔سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار (جوڈیشل) کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس کی سماعت جمعرات کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی ۔ ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنا جواب جمع کراتے ہوئے عدالت سے توہین عدالت کا نوٹس واپس لینے کی استدعا کی اور کہاکہ انہوں نے عدالت کی نافرمانی نہیں کی بلکہ عدالتی حکم کی روشنی میں سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو ایک نوٹ لکھا۔جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے فیصلہ محفوظ کر لیا جو بعد میں سنایا جائے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے سامنے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ججز کمیٹی عدالتی حکم کی جگہ کسی مخصوص بنچ سے کیس واپس لے سکتی ہے؟ کیا عدالتی حکم کو کسی انتظامی فورم سے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ عدالتی معاون ایڈووکیٹ حامد خان نے عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کو کسی انتظامی حکم سے تبدیل یا ختم نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے عدالتی معاون سے پوچھا کہ معاملہ ججز کمیٹی کی جانب سے کیس واپس لینے کا ہے۔
کیا ایسے معاملے میں معاملہ فل کورٹ میں بھیجا جا سکتا ہے؟ عدالت کو اس سوال پر مدد کی ضرورت ہے۔جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے کہ سارے معاملے میں ابہام ہے۔عدالتی معاون ایڈووکیٹ محمد احسن بھون نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا جائے۔ بنچوں کے سامنے کیسز رکھنے میں کمیٹی درست ہے۔ جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ نہیں بلایا جا سکتا۔ اس سے مسائل کا انبار پیدا ہوگا۔اٹارنی جنرل فار پاکستان منصور عثمان اعوان نے عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ بنچ توہین عدالت کے نوٹس کی کارروائی کے لیے موزوں نہیں ہے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ رولز کے مطابق اس مقصد کے لیے بنچ تشکیل دیں۔ اس بنچ کے پاس توہین عدالت کے نوٹس کو آگے بڑھانے کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے۔ توہین عدالت کا طریقہ کار واضح ہے اور اس مقصد کے لیے بنچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے۔عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا جو بعد میں سنایا جائے گا۔