بچوں کے مستقبل کو موسمیاتی آفات، آبادی کے تناسب میں تبدیلی اور تکنیکی عدم مساوات کا سامنا ہے ، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ بدلتی ہوئی دنیا میں بچوں کے مستقبل کو تین بڑے رجحانات بشمول موسمیاتی آفات، آبادی کے تناسب میں تبدیلیاں اور تکنیکی عدم مساوات کا سامنا ہے، یہ صورتحال 2050 تک ڈرامائی طور پر بچپن کو نئی شکل دے گی۔یہ بات اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے بچوں کے عالمی دن کے حوالے سے اپنے انتباہی پیغام میں کہی ۔انہوں نے کہا کہ یہ چونکا دینے والی بات ہے کہ 21ویں صدی میں کوئی بھی بچہ بھوکا، ان پڑھ یا بنیادی صحت کی سہولیات سے محروم رہے،بچوں کی زندگی غربت کے چکر میں پھنس جانا یا آفات کی زد میں آنا انسانیت کے ضمیر پر دھبہ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ 2050تک بچوں کو موجودہ سطح سے آٹھ گنا شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ سیلابوں کا خطرہ 2000 کی دہائی کے مقابلے میں تین گنا بڑھ جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ 2023 کے ریکارڈ درجہ حرارت کے بعد آب و ہوا کے متوقع خطرات غیر متناسب طور پر بچوں کی سماجی و اقتصادی زندگی وسائل تک رسائی کی بنیاد پر متاثر کریں گے۔ادھر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے خبر دار کیا ہے کہ بچوں کو موسمیاتی مشکلات سے آن لائن خطرات تک بے شمار بحرانوں کا سامنا ہے جو آئندہ سالوں میں شدید تر ہوجائیں گے۔
آبادی کے تناسب میں نمایاں تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2050 کے عرصے میں سب سے زیادہ بچے افریقا اور جنوبی ایشیائی خطے میں ہوں گے۔2024 میں زیادہ آمدنی والے ممالک میں 95 فیصد سے زیادہ لوگوں کے پاس انٹرنیٹ تک رسائی ہے جبکہ کم آمدنی والے ممالک میں یہ تعداد محض 26 فیصد ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً 96 فیصد بچوں کے 2050 تک پرائمری تعلیم حاصل کرنے کی توقع ہے، تعلیم اور صحت عامہ کی سرمایہ کاری میں اضافہ اور زیادہ سخت ماحولیاتی تحفظ صنفی فرق اور ماحولیاتی خطرات کو کم کر سکتا ہے۔