عالمی

جرمن حکومت نے جرائم میں ملوث افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کی پالیسی میں تبدیلی پر غور شروع کر دیا

جرمن حکومت نے ایک پولیس اہلکار پر حملے کے بعد جرائم میں ملوث افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کی پالیسی میں تبدیلی پر غور شروع کر دیا۔ ڈوئچے ویلے کے مطابق جرمنی کی وفاقی وزیر داخلہ نینسی فیزر نے کہا کہ جرمن حکومت مجرموں کی افغانستان واپسی دوبارہ شروع کرنے پر غور کررہی ہے۔قبل ازیں 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی نے افغان تارکین وطن کو افغانستان واپس بھیجنا بند کردیا تھا کیونکہ جرمن قانون کے مطابق تارکین وطن کو ان ممالک میں واپس نہیں بھیجا جاتا جہاں ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہوں۔لیکن ایک افغان پناہ گزین پر من ہائم میں ایک پولیس افسر پر چاقو سے حملے کا الزام عائد ہونے کے بعدجرمن حکام اب اس پالیسی پر نظر ثانی کررہے ہیں۔

جرمن وزیر داخلہ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ میرے لیے یہ بالکل واضح ہے کہ جو لوگ جرمنی کی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرہ ہیں، انہیں فوری طورپر ملک بدر کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اس بات پر بھی پوری طرح یقین رکھتی ہوں کہ جرمنی کی سلامتی کے مفادات واضح طورپر متاثرہ غیر ملکیوں کے مفادات سے زیادہ اہم ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اسی لیے ہم مجرموں اور خطرناک لوگوں کو شام اور افغانستان دونوں میں ہی ڈی پورٹ کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو مین ہائم میں ایک اسلام مخالف ریلی کے دوران ایک جرمن پولیس افسر پر چاقو سے حملہ کیا گیا تھا ۔

میڈیا نے بعد میں مشتبہ کی شناخت 25 سالہ شخص کے طورپر کی جو مارچ 2013 میں سیاسی پناہ حاصل کرنے جرمنی پہنچا تھا۔جرمن اخبار بلڈ کے مطابق اگر چہ ابتدائی طور پر اسے پناہ دینے سے انکار کردیا گیا تھا لیکن اسے ملک بدر نہیں کیا گیا کیونکہ اس وقت اس کی عمر 14 سال تھی۔جرمن اخبار اسپیگل کے مطابق مشتبہ شخص نے بعد میں ایک سکول میں داخلہ لیا اور 2019میں ایک ترک نژاد جرمن خاتون سے شادی کی، جس سے اس کے دو بچے ہیں۔ مشتبہ شخص کے پڑوسیوں کا کہنا تھا وہ انتہاپسندانہ خیالات کا حامل دکھائی نہیں دیتا تھا۔

متعلقہ آرٹیکل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button