ٹاپ نیوزقومی

سوشل میڈیا پر عدلیہ مخالف مہم کی تحقیقات قانون کے مطابق ہیں، کسی کو ہراساں نہیں کیا جا رہا، مرتضیٰ سولنگی

نگران وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات و پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر عدلیہ مخالف مہم کی تحقیقات آئین اور قانون کے مطابق ہیں، جے آئی ٹی قانون کے تحت اپنا کام کر رہی ہے، کسی کو ہراساں نہیں کیا جا رہا نہ کسی کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے، قانونی نوٹس دینا متعلقہ اداروں کا اختیار ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو عدلیہ مخالف مہم کی تحقیقات کیلئے تشکیل دی جانے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن کمیٹی (جے آئی ٹی) کے کنوینر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے احمد اسحاق جہانگیر اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ نے 16 فروری کو اعلیٰ عدلیہ کے خلاف تضحیک آمیز اور بہتان تراشی پر جاری مہم کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی جس کا پہلا اجلاس 17 جنوری اور دوسرا اجلاس 23 جنوری کو ہوا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت تک سوشل میڈیا کے تقریباً 600 اکائونٹس پر تحقیقات ہوئی ہیں، 100 انکوائریز رجسٹرڈ کی گئیں، تقریباً 110 افراد کو نوٹس جاری کئے گئے جن میں 22 سیاسی کارکنان یا سیاستدان اور 32 صحافی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تک قانون کے تحت صرف نوٹس جاری کرنے کی کارروائی ہوئی ہے، کسی کو ہراساں نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی اب تک ہونے والی کارروائی قانون کے مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہار رائے کی آزادی لامحدود نہیں ہے اس پر مناسب پابندیاں ہیں۔ آئین کے اندر درج ہے کہ مسلح افواج اور عدلیہ کے خلاف آئین اور قانون کے دائرہ سے باہر کوئی مہم نہیں چلائی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ تنقید ہو سکتی ہے لیکن یہاں بات کردار کشی اور تضحیک کی ہو رہی ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پچھلے دنوں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف جو کچھ ہوا ہے وہ کسی طور بھی تنقید کے زمرے میں نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ تنقید تہذیب کے دائرہ میں ہونی چاہئے اور بہتان تراشی سے گریز کرنا چاہئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جے آئی ٹی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے، ہم آئین، قانون اور عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔ صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے، اس وقت صرف سینیٹ موجود ہے جبکہ قومی اسمبلی کا وجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی کو ہراساں نہیں کیا جا رہا، قانونی نوٹس دینا متعلقہ اداروں کا اختیار ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی بننے کے بعد کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی بننے کے بعد سوشل میڈیا پر بہتان تراشی، کردار کشی اور غلیظ حملے کرنے کی مہم میں واضح کمی آئی ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک معاملہ عوامی رائے کا ہے اور ایک معاملہ قانون کی عدالت کا ہے، قانونی سوالات قانون کی عدالت میں رکھیں گے، پبلک ڈومین میں پچھلے کئی دنوں سے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر پروگرام ہو رہے ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ یکطرفہ طور پر حکومت، حکومتی اداروں اور اعلیٰ عدلیہ پر حملے ہوں اور ہم خاموش رہیں، حقائق سے آگاہی ضروری ہے، ہم نے حقائق سامنے رکھے ہیں، قانونی سوالات کے جواب قانون کی عدالت میں پیش کریں گے۔

اس موقع پر کمیٹی کے کنوینر ڈی جی ایف آئی اے احمد اسحاق جہانگیر نے کہا کہ کسی شخص کو نوٹس جاری کرنے کا مطلب اس کا موقف معلوم کرنا ہے، یہ ضروری نہیں کہ ہر نوٹس پر ایف آئی آر درج ہو۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی بننے سے پہلے غیر یقینی کی فضاءتھی، ایسا تاثر دیا جا رہا تھا جس سے فضا خراب ہو رہی تھی۔

ایف آئی اے حکام نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ جے آئی ٹی بننے سے پہلے تقریباً 60 سے 70 ملین لوگوں کی پوسٹیں تھیں، جے آئی ٹی بننے کے بعد ان میں واضح کمی آئی ہے، کئی لوگوں نے اپنے ٹویٹس اور پوسٹیں ڈیلیٹ کی ہیں۔

متعلقہ آرٹیکل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button