قومی

فلسطین کے حق میں یہ کیسا احتجاج ہے جس میں جدید ہتھیار، خنجر، چاقو اٹھائے لوگ شریک ہوئے، جلائو گھیراؤ اور امن تباہ کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دیں گے،عطاء اللہ تارڑ

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان نے فلسطین کا معاملہ ہر عالمی فورم پر اٹھایا، ہر طرح سے فلسطینی بہن بھائیوں کا ساتھ دیا، جنگ بندی معاہدے پر فلسطینی سجدہ ریز ہوئے، مہذب دنیا میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے بھی ہوئے، لندن، اٹلی، برطانیہ میں احتجاج کے دوران ایک گملہ نہیں ٹوٹا، فلسطین کے حق میں یہ کیسا احتجاج ہے جس میں جدید ہتھیار، خنجر، چاقو اٹھائے لوگ شریک ہوئے، احتجاج کے نام پر پرتشدد کارروائیاں کی گئیں، احتجاج کرنے والوں کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچائیں، احتجاج کرنے والوں نے پولیس انسپکٹر کو شہید کیا، اس کا کیا قصور تھا کہ اسے 21گولیاں ماری گئیں، جلائو گھیراؤ اور امن تباہ کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دیں گے۔

جمعرات کو یہاں وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف اور وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ احتجاج کے نام پر پرتشدد کارروائیاں کی گئیں اور ملک میں امن و امان کی صورتحال کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا نے دیکھا کہ فلسطین کا مسئلہ حل کی جانب بڑھ رہا تھا، پاکستان نے ہر بین الاقوامی فورم پر فلسطین کا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی سطح پر نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کی آواز مؤثر انداز میں اٹھائی۔ حال ہی میں شرم الشیخ (مصر) میں فلسطینی صدر محمود عباس نے وزیراعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے عوام کے بھی شکرگزار ہیں جنہوں نے اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کا ہر ممکن ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا نے دیکھا، جب غزہ، رفاہ، خان یونس اور مغربی کنارے کے عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ فلسطینی ماؤں، بہنوں، نوجوانوں اور بزرگوں نے باہر آکر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ ان کے چہروں پر خوشی کے آنسو قابلِ دید تھے کیونکہ وہاں مظالم کا سلسلہ رُک گیا ہے، جنگ بند ہوئی اور امن بحال ہوا۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ پوری دنیا میں فلسطین کے حق میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے، یورپ اور مسلم ممالک میں لاکھوں افراد سڑکوں پر آئے مگر کہیں ایک گملہ تک نہیں ٹوٹا۔ آسٹریلیا میں لاکھوں افراد نے پُرامن انداز میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کیا، لندن اور اٹلی میں بھی بھرپور احتجاجی مظاہرے ہوئے لیکن کہیں کوئی پرتشدد واقعہ پیش نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے واحد پاکستان بالخصوص پنجاب میں، یہ منظر دیکھا گیا کہ جب تحریکِ لبیک پاکستان فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے نکلی تو ان کے پاس جدید اسلحہ، خنجر، غلیلیں، اینٹیں اور پتھر سمیت ہر قسم کا ہتھیار موجود تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب ایک طرف فلسطین کا مسئلہ حل کی جانب گامزن ہو، پوری دنیا میں جشن منایا جا رہا ہو اور خود فلسطینی یہ کہہ رہے ہوں کہ امن قائم ہو گیا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے ہوں، تو پھر پاکستان کے اندر کسی جماعت کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ باہر نکل کر جدید اسلحے سے لیس ہو کر نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے۔ انہوں نے کہا کہ شیخوپورہ کے اُس ایس ایچ او کے اہلِخانہ سے جا کر پوچھیں جسے گاڑی سے اتار کر گولیاں ماری گئیں، وہ شخص جس نے ساری زندگی ملک و قوم کی خدمت کی، اس کا قصور آخر کیا تھا؟ وفاقی وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ پرامن احتجاج جماعتِ اسلامی نے بھی کیا، کراچی، اسلام آباد اور راولپنڈی میں ان کے عظیم الشان پر امن مظاہرے ہوئے جن میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ آئینِ پاکستان احتجاج کی اجازت دیتا ہے اور اس کے مخصوص ضوابط ہوتے ہیں، احتجاج پرامن ہونا چاہئے اور انتظامیہ سے مطلوبہ اجازت نامے حاصل کئے جانے چاہئیں تاہم امن کو بگاڑنا، جلاؤ گھیراؤ کرنا، اسلحے کا استعمال اور پولیس اہلکاروں کو زخمی کرنا ناقابلِ قبول ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکار بھی کسی کے بیٹے اور بھائی ہیں، جب وہ گھر سے نکلتے ہیں تو اُن کے اہلِخانہ دعا گو ہوتے ہیں کہ ان کا بیٹا یا بھائی ملک و قوم کی خدمت کے دوران محفوظ رہے مگر بدقسمتی سے ایک تاثر بن گیا ہے کہ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ دین دار ہیں یا فلسطین کے مقدمے کے سب سے بڑے حامی صرف وہی ہیں جو کہ سراسر غلط اور خطرناک ذہنیت ہے۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ ہم نبیِ کریم ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہیں اور آپ ﷺ نے ہمیں زندگی گزارنے کا مکمل طریقہ کار دیا ہے ، آج اگر ہم پولیس اہلکاروں کو شہید یا زخمی کرتے ہیں تو یہ کس دین میں لکھا ہے؟

انہوں نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو رہا ہے، فلسطینی خوشیاں منا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے ہیں مگر یہاں ایک پولیس انسپکٹر کو 21 گولیاں مار کر شہید کر دیا جاتا ہے جو نہ دین میں جائز ہے، نہ قانون میں اور نہ ہی آئین میں۔ وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ جب معاملہ بات چیت کے ذریعے حل ہو رہا ہو اور کسی جگہ یا مقام کے بارے میں بات ہو رہی ہو مگر لوگ ضد پر اڑے رہیں تو صورتحال ہمیشہ کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں قانون موجود ہے اور سب کو اسی طریقہ کار کے تحت رہنا ہوگا، اسی ضابطے کے مطابق احتجاج اور دیگر امور کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس معاملے کے حوالے سے وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی زیرِ صدارت ایک اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں وزیرِ مذہبی امور سردار یوسف، وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری اور وہ خود شریک تھے۔

متعلقہ آرٹیکل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button