قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کا اجلاس

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم ،پیشہ وارانہ تربیت ، قومی ورثہ اور ثقافت کا اجلاس جمعرات کو کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان انجم عقیل خان، راجہ خرم شہزاد نواز، سیدہ نوشین افتخار، ذوالفقار علی بھٹی، زیب جعفر، فرح ناز اکبر، ڈاکٹر شازیہ صوبیہ، اسلم سومرو، مسرت رفیق مہیسر، علیم خان، سبین غوری، داور خان کنڈی، اسامہ حمزہ، فیاض حسین، اسلم گھمن، ثمینہ خالد گھرکی اور چیئرمین ایچ ای سی سمیت دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ کمیٹی نے مستحق افراد کیلئے خصوصی نشستوں کی ریزرویشن (یونیورسٹیز بل 2024ء)، دی ویسٹ منسٹر آف ایمرجنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی بل 2024ء اور فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن ترمیمی بل 2024ء پر غور موخر کیا۔
کمیٹی نے گھرکی انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بل 2024ء کو منظور کرنے کی سفارش کی جبکہ کمیٹی نے این ایف سی انسٹی ٹیوٹ ملتان سے کارکنوں کو نکالنے کے حوالے سے ایجنڈے پر موجود آئٹم آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا۔ کمیٹی نے وزارت اسلام آباد کے مختلف کالجوں میں سیکڑوں اساتذہ کو یومیہ اجرت پر تعلیمی شعبے سے وابستہ رکھنے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ 37 ہزار روپے فی مہینہ بہت کم ہے اور جن اساتذہ کو مستقل کیا گیا ہے وہ بھی بہت تاخیر سے ہوا ہے۔ کمیٹی کو اساتذہ نے بتایا کہ ریگولر ہونے والے اساتذہ کو ایک سال گزرنے کے باوجود پوسٹنگ آرڈرز جاری نہیں کئے گئے۔
کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ ریگولرلائزیشن کے عمل میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ کمیٹی کی جانب سے پیرا کو ہدایت کی گئی کہ کوئی بھی پرائیویٹ سکول والدین سے مقررہ فیس سے زیادہ رقم وصول نہ کرے اور نہ ہی تقریبات ، یونیفارم یا دیگر سامان کی آڑ میں طلباء سے رقم وصول کی جائے۔اساتذہ کو ان کی تعلیمی قابلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر تنخواہیں یقینی بنائی جائیں۔ کمیٹی نے پرائیویٹ سکولوں میں پک اینڈ ڈراپ سروسز کے دوران بچوں کی حفاظت ، پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں غیر منظم فیس سٹرکچر، سنگل روم پرائیویٹ سکولوں کے آپریشن اور نصاب میں یکسانیت کے فقدان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ان معاملات پر سخت ضوابط کی ضرورت ہے۔ کمیٹی نے پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیویشنز ریگولیٹری اتھارٹی (پیرا) کو فوری اور فیصلہ کن کارروائی کرنے کی سفارش کی تاکہ تمام نجی تعلیمی اداروں میں بچوں کے تحفظ ، فیس کے ضوابط اور نصابی ہدایات کی تعمیل کو شفاف بنایا جا سکے۔
پیرا کی جانب سے اسلام آباد میں موجود نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ان اداروں میں 45 فیصد لڑکیاں اور 55 فیصد لڑکے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔پیرا نے عوامی شکایات کے اندراج کیلئے ایک سیل قائم کیا ہے شہری براہ راست ای میل کے ذریعے یا ذاتی طور پر آ کر شکایات درج کرا سکتے ہیں۔ پاکستان سٹینز ن پورٹل پر بھی شکایات موصول ہوتی ہیں ان شکایات کے ازالے کیلئے پیرا نے معیاری آپریٹنگ پروسیجرز تیار کئے ہیں۔
اتھارٹی تمام شکایات پر مستعدی سے کارروائی کرتی ہے۔کمیٹی کو ایسپائر پروگرام کے حوالے سے بریفنگ دی گئی جس میں بتایا گیا کہ پسماندہ اضلاع میں تعلیمی نتائج کو بڑھانے کی یہ اہم کوشش ہے اس کے تحت وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کو مالیاتی گرانٹس فراہم کررہی ہے جس سے تعلیمی اصلاحات پر تعاون کو فروغ دیا جا رہا ہے، رواں سال کے آخر تک صوبوں کو 24 ارب روپے مل جائیں گے تاکہ تعلیمی اشاریوں کو بہتر بنانے کا مقصد پورا کیا جا سکے اس اقدام کے تحت صوبائی حکومتوں کو اپنی ضروریات کے مطابق تعلیمی سرگرمیوں کو ڈیزائن اور لاگو کرنے میں مکمل خود مختاری حاصل ہے۔
ایسپائر پروگرام کا بجٹ 200 ملین ڈالر ہے جو جون 2025ء میں ختم ہو جائے گا۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ ایسپائر پروگرام کو صوبوں کے کم خواندگی والے اضلاع میں لاگو کیا جائے۔