قومی

پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات ختم کرنے کے اعلان پر افسوس ، سیاست میں مذاکرات جمہوری عمل کا حصہ ہوتے ہیں ، بانی پی ٹی آئی کے الزامات پر مبنی ٹویٹس اور سول نافرمانی تحریک کی باتوں کے باوجود حکومت نے کھلے دل سے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھایا ، عرفان صدیقی

سینٹ میں پاکستان مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر ، حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات ختم کرنے کے اعلان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست میں مذاکرات جمہوری عمل کا حصہ ہوتے ہیں ، بانی پی ٹی آئی کے الزامات پر مبنی ٹویٹس اور سول نافرمانی تحریک کی باتوں کے باوجود حکومت نے کھلے دل سے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھایا ،پی ٹی آئی کو اگر کوئی اعتراض تھا تو وہ تحریری طور پر آگا ہ کر تے ،حکومت آزادی اظہار رائے پر مکمل یقین رکھتی ہے ، وی لاگز پہلے صحافیوں کے حق پر ڈاکہ مارتے ہیں اسکے بعد وہ حکومت کے لئے خطرہ بنتے ہیں ، اپوزیشن نے خود 42 دنوں کے بعد تحریری طور پر مطالبات کمیٹی کے سامنے رکھے اور اپنے مطالبات پر مثبت جواب کے لئے حکومتی ٹیم کو 7 یوم کا وقت دیا ۔ وہ جمعرات کو پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے ۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ذمہ داران نے بانی پی ٹی آئی کی ایماء پر آج اعلان کیا ہے کہ حکومت کے ساتھ جاری مذاکراتی عمل ختم کر دیا ہے ۔ مذاکرات کا یہ عمل بھی انہی کی پیش رفت پہ شروع ہوا تھا، بانی پی ٹی آئی نے خود پانچ دسمبر کو ایک کمیٹی قائم کی اور خواہش کی تھی کہ ہم بات چیت کرنا چاہتے ہیں ، اس سے پہلے بہت سی معرکہ آرائیاں بھی ہو چکی تھی فتوحات کے کی بڑی کوششیں ہو چکی ہیں ، 9 مئی ، 24 ،25 اور 26 نومبر بھی ہو چکا تھا اس کے بعد انہوں نے شاید محسوس کیا کہ اب ہمارے پاس معرکہ آرائی کے بجائے مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا ۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے وزیراعظم سے ملاقات کی اور بات چیت کے لئے کمیٹی قائم کی جس میں تمام اتحادی جماعتوں کے ارکان کو شامل کیا گیا ۔کمیٹی کے تین اجلاس منعقد ہوئے جس میں گفت و شنید ہوئی ، 16 جنوری کو 42 دن ےک بعد پی ٹی آئی نے تحریری طور پر اپنے مطالبات پیش کیے اور ہم سے یہ تقاضہ ہے کہ اپ سات دن کے اندر اندر ان تمام نکات کا مثبت جواب دیں ۔حکومتی مذاکراتی ٹیم پی ٹی ائی کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جو جماعت جو ہم سے ہاتھ ملانا نہیں چاہتی تھی وہ اچانک ہم سے ہاتھ ملانے پہ راضی ہو گئے اور راضی ہونے کے بعد اچانک انھیں الہام ہوا کہ 7 یوم میں ان کے مطالبات پورے ہونے چاہیں ۔

انہوں نے کہا کہ مشاورتی عمل تکمیل کے مرحلے میں داخل ہوا تو ہم نے تجویز دی کہ 28 جنوری کو کمیٹی کا آئندہ اجلاس بلایا جائے جس میں پی ٹی آئی کے مطالبات پر تحریری جواب پیش کیا جائے گا ۔ انہوں نے اپوزیشن کے لئے شعر پیش کیا کہ ان کو آنے کی بھی بے تابی تھی اور جانے کی بھی چلتی ہے ، وہ جس میں تابی سے ائے تھے اسی بے تابی سے واپس جا رہے ہیں ، ہم انہیں کہتے ہیں کہ ابھی نہ جائیں اس دن ٹھہر جائیں موسم خوشگوار ہونے دیں ۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی سے اپیل کی ہے کہ وہ مذاکرات ختم کرنے کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں ، ں سیاست میں مذاکرات ہی ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم جمہوریت کے حوالے سے پارلیمانی روایات ، ملکی مفاد اور سیاسی استحکام کے حوالے سے بات کر رہے ہی۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی ایماء پر حکومت نے بات چیت شروع کی ، اب اس عمل کو ادھورا چھوڑ کر جارہے ہیں ، ہمارا جواب تو سن لیتے ۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ، پارلیمان ، صوبائی حکومتیں کام کررہی ہیں اور معیشت کے اشاریئے بھی بہتر ہورہے ہیں ، ان کو سوچنا چاہیے کہ وہ اگر اس عمل سے نکلیں گے تو کہاں جائیں کہ اپ وہ پھر نو مئی یا 26 نومبر کی جانب لوٹیں گے ؟

متعلقہ آرٹیکل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button