عالمی

اقوام متحدہ کے معاہدے ’’پیکٹ فار دی فیوچر‘‘کے تحت کئے گئے فیصلے تنازعات کے خاتمے کے لئے کافی نہیں ، پاکستان

پاکستان نے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سمیت بین الاقوامی تنازعات کے حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ دنیا میں امن و سلامتی کے قیام اور تنازعات کے خاتمے کے حوالےسے طے پانے والے اقوام متحدہ کے معاہدے ’’پیکٹ فار دی فیوچر ‘‘ کے تحت کئے گئے فیصلے ناکافی ہیں اور مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں جاری تنازعات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے منگل کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک مباحثے کے دوران کہا کہ جاری اہم جاری تنازعات جیسا کہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جاری فلسطینیوں کی نسل کشی اور مشرق وسطیٰ ، افریقہ یا جنوبی ایشیا میں تنازعات کو کسی بھی معاہدے کے ذریعے مؤثر طریقے سے حل نہیں کیا جاسکا۔

اس موقع پر مندوبین نے معاہدے اور اس کے دو ضمیموں، گلوبل ڈیجیٹل کمپیکٹ اور مستقبل کی نسلوں کے اعلامیہ پر اپنے خیالات، امیدوں، مایوسیوں اور تحفظات کا اظہار کیا، جن کی منظوری 22 ستمبر کو پیکٹ فار دی فیوچر اجلاس میں دی گئی تھی۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ اس معاہدہ میں ہتھیاروں کی فراہمی پر کنٹرو ل یا عالمی سطح پر ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ کو روکنے کے اقدامات کی تفصیلات بھی شامل نہیں ۔انہوں نے زور دیا کہ اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں سلامتی کونسل، تخفیف اسلحہ سے متعلق کانفرنس، تخفیف اسلحہ کمیشن اور خاص طور پر جنرل اسمبلی کو مسائل کو حل کرنا چاہیے جن کا ہمیں سامنا ہے اور ہمیں اس سلسلے میں اقدامات کرنے چاہیئں ۔ منیر اکرم نے افریقہ اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے خلاف تاریخی ناانصافیوں کے ازالے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ امن کو فروغ دینے یا تنازعات کو حل کرنے میں ناکامی کے لیے اقوام متحدہ کے سکیورٹی ڈھانچے کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ناکامی کچھ بڑی اور کچھ چھوٹی طاقتوں کے سٹریٹجک عزائم اور پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کے لئے کوششوں کو حریف طاقتوں کے درمیان اس سٹریٹجک مقابلے کا حصہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ انہوں نے بعض ممالک کی جانب سے سلامتی کونسل کی رکنیت میں توسیع کی حمایت کے حوالے سے کہا کہ اس طرح کا نقطہ نظر عالمی نظام کو مضبوط نہیں کرے گا بلکہ یہ اسے ختم کر دے گا اور سلامتی کونسل میں اصلاحات کو جنرل اسمبلی کے احیا کے ساتھ ہونا چاہیے۔ جہاں تک ترقی پذیر ممالک کا تعلق ہے، پاکستانی مندوب نے اس بات پر زور دیا کہ پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز ) کے حصول کو معاہدے کے کسی دوسرے اقدام سے منسلک نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہم ترقیاتی فنانس اور بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچے میں اصلاحات، حکومتوں کو قرضوں کی فراہمی کے نظام میں اورتجارت اور ٹیکس کے حوالہ سے اصلاحات کے وعدوں کی تکمیل کے منتظر ہیں۔

اپنی تقریر کے آغاز میں پاکستانی مندوب نے 16 رکنی ہم خیال گروپ کی جانب سے معاہدے سے پیدا ہونے والے مسائل پر بات کی، جس کا مقصد اقوام متحدہ کو مضبوط بنانا ہے تاکہ یہ لوگوں کے لیے بہتر مستقبل فراہم کرے۔پاکستان کے علاوہ گروپ کے دیگر ارکان میں الجزائر، بولیویا، چین، کیوبا، مصر، اریٹیریا، ایران، عراق، لیبیا، نکاراگوا، روس، سری لنکا، شام، وینزویلا اور زمبابوے شامل ہیں۔ منیر اکرم نے ہم خیال گروپ کی جانب سے افسوس کا اظہار کیا کہ اس معاہدے میں خودمختار مساوات، اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور لوگوں کے حق خود ارادیت کے ساتھ ساتھ نوآبادیات اور غیر ملکی قبضے کا ذکر نہیں کیا گیا جیسا کہ اقوام متحدہ کے اقدامات اور دستاویزات کے پہلے اتفاق رائے میں ظاہر ہوا ہے۔ گروپ نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ پیراگراف 18 ماحول کے تحفظ کے اقدامات کے لئے فنڈز کی فراہمی کی اضافی نوعیت کے فہم کو کم کرتا ہے جیسا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے پیرس معاہدے میں بیان کیا گیا ہے۔ گروپ نے امن اور سلامتی کے بارے میں کہا کہ یہ معاہدہ حقیقی خطرات اور چیلنجز سے نمٹنے میں ناکام ہوسکتا ہے، جس میں خطرات اور چیلنجز کی بنیادی وجوہات جیسے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی خلاف ورزی، بین الاقوامی قانون، جغرافیائی پولرائزیشن اور تناؤ، بڑھتے ہوئے تنازعات اور غیر حل شدہ تنازعات بھی شامل ہے۔ گروپ نے حکومتوں کو قرضوں کی فراہمی کے اہم مسئلے پر ترقی پذیر ممالک کی ایک بڑی تعداد کے جاری قرض کے بحران کو حل کرنے کے لیے فوری، جامع اور شفاف کثیرالجہتی حل کی ضرورت پر زور دیا۔ گروپ نے کہا کہ اقوام متحدہ کو اس عمل میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے،یہ معاہدہ اقوام متحدہ کے اس کردار کی ضمانت نہیں دیتا۔

متعلقہ آرٹیکل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button